پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں طالبان مخالف امن لشکروں کے رہنما حکومت کی طرف سے اپنے اختیارات کم کیے جانے پر نہ صرف پہلے کے مقابلے میں خود کو زیادہ غیر محفوظ تصور کرتے ہیں بلکہ حکومت کا ساتھ دینے کو وہ زندگی کی سب سے بڑی غلطی بھی قرار دے رہے ہیں۔
پشاور کے مضافاتی علاقے ماشوخیل بڈھ بیر میں طالبان مخالف امن کمیٹی کے سربراہ اسرار خان کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے امن کمیٹوں کے اختیارات کم کرنے سے ان کی زندگیوں کو لاحق خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے انھیں حکومت کی طرف سے کئی محافظ دیے گئے تھے اور انھیں دیگر مراعات بھی حاصل تھی لیکن اب ان سے یہ تمام اختیارات واپس لے لیےگئے ہیں۔
ان کے بقول ’ہمارا مقابلہ انتہائی تربیت یافتہ افراد سے ہیں جن کے خلاف لڑنا ویسے بھی اتنا آسان نہیں اور ایسے میں لڑنا تو دور کی بات ہے، ایک یا دو پولیس اہلکاروں کی مدد سے ہم اپنا دفاع بھی نہیں کر سکتے۔‘
انہوں نے کہا کہ امن لشکر کے رضاکار حکومت اور عوام کی خاطر زندگیاں قربان کر رہے ہیں لیکن بدلے میں ان کے پاس جو کچھ تھا وہ بھی ان سے چھین لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھائی کے اغواء اور کچھ دیگر مجبوریوں نے انہیں طالبان کے خلاف لشکر تشکیل دینے اور حکومت کا ساتھ دینے پر مجبور کیا لیکن اب وہ اپنے فیصلے پر پشیمان ہیں۔
’ہمیں شدت پسندوں کے خلاف لشکر بنانے اور حکومت کا ساتھ دینے کی کیا ضرورت تھی، اب ہم ایک ایسے بند گلی میں کھڑے ہیں جہاں ہمیں ہر طرف موت ہی موت نظر آتی ہے۔‘
ان کے بقول ’شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں اپنے بھائی اور ایک رشتہ دار کو کھو چکا ہوں، اپنے گاؤں سے خاندان سمیت بےگھر ہوا اور یہاں تک کہ اپنی جائیداد تک فروخت کر دی۔‘
تاہم اسرار خان کے مطابق حالات اب ایسے حد تک پہنچ گئے ہیں کہ اب وہ طالبان سے راضی نامہ کرسکتے ہیں اور نہ اور طرح سے اس جنگ سے جان چھڑاسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پشاور کے مضافاتی علاقوں میں حکومتی حامی لشکروں اور امن کمیٹیوں کے سو کے قریب رضاکار شدت پسندوں کے حملے میں مارے جا چکے ہیں لیکن افسوس ان قربانیوں کی قدر نہیں کی گئی۔
خیال رہے کہ پاکستان میں 2008 میں حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں شدت پسندوں کو عام افراد سے لاتعلق کرنے کے لیے قبائلی لشکر بنانے کی حکمت عملی کا آغاز کیا۔
اس حکمت عملی کے تحت قبائلی علاقے کے سرحد پر واقع پشاور کے مضافاتی علاقوں میں بھی کئی طالبان مخالف لشکر تشکیل دیے گئے۔ ابتدا میں ان لشکروں یا امن کمیٹیوں کو شدت پسندوں کے مکانات پر چھاپے مارنے ، ان کو حراست میں لینے اور ان کے مکان مسمار کرنے کا اختیار دیا گیا جبکہ ان کو پولیس اور خاصہ دار فورس کے اہلکار بھی دیے گئے۔
تاہم لشکروں میں شامل اکثریت جرائم پیشہ افراد سامنے آئے جنھوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کئی علاقوں میں اس پلیٹ فارم کو ذاتی مفادات کےلیے استعمال کیا بلکہ یہاں تک کہ شدت پسندوں کے نام پر بےگناہ افراد کو قتل کیا۔
تاہم گزشتہ سال حکومت نے ان لشکروں کے اختیارات کو محدود کردیا اور یہ رضاکار اب اپنے طورپر کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرسکتے بلکہ ان کا کام پولیس یا سکیورٹی فورسز کی مدد کرنا یا کو شدت پسندوں کے بارے معلومات فراہم کرنا ہے۔
Published in the XReports.net, on March 21st, 2014 | BBC