طالبان کی شرائط میں سب سے پہلی شرط یہ تھی کہ ۴۰،۰۰۰ چالیس ہزار طالبان کو ایف سی میں ضم کیا جائے، ڈرو ن حملوں میں مرنے والے افراد کے لواحقین کو گورنمنٹ ملازمت دی جائے، قیدی طالبان کو رہا کر دیا جائے اور آئین پاکستان کی جگہ طالبانی شریعت کونافذ کیا جائے اور محسود قبائل کے لوگوں کو حکومت کی جانب سے گھر بنا کر دئیے جائیں ۔ مذکرات صرف اس وجہ سے کامیاب نہیں ہو سکے کہ سابق آرمی چیف آف اسٹاف نے ایک شرط پر اپنے تحفظات ایف سی میں صرف ۲۷،۰۰۰ افراد کی بھرتی کی حامی بھری تھی۔
دوسری طرف امن امان کے حوالے سے کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا گیا۔ اس آپریشن سے صرف یہ فرق واضح ہوا کہ پہلے اغواء برائے تاؤان کی وارداتیں دہشتگرد کرتے تھے لیکن اب سندھ حکومت میں موجود وزراء کی مدد سے کی جارہی ہیں۔ جبکے دہشت گرد آج بھی آزاد، پولیس عوام آج بھی ٹاگٹ کلنگ میں مررہے ہیں، کاروباری حضرات دو گُنا بھتہ دینے پر مجبور ہیں۔ آپریشن کی کمانڈ سندھ کے وزیراعلی قائم علیشاہ کو دی گئی۔ ایک کمیٹی تشکیل دینے کی بھی بات کی گئی لیکن چوہدری نثار کے کہنے کے باوجود تاحال اسکی تشکیل نہ ہوسکی۔ آپریشن شروع ہونے کے بعد بھی ٹارگٹ کلنگ میں مرنے والوں کی روزانہ تعداد 10 سے 12 ہوجاتی ہے۔ اس میں اتنی پیش رفت ضرور ہوئی کہ ہر چیز کا الزام ایڈیشنل آئی جی (پولیس چیف) شاہد حیات صرف ایک ہی جماعت پر لگا تے ہیں اور لیاری کے چیل چوک پر چیل آج بھی براجمان ہے۔
ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم کو غریب آبا د کے قریب ایک دھماکے میںشہید کر دیا گیا۔ دھماکے کی تفتیش سے متعلق متضاد خبریں میڈیا کی زینت بنی۔ ایک دن پہلے شہید چوہدری اسلم نے منگوپیرکےعلاقےمیں3تحریک طالبان کے کارندوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور بھاری تعداد میں اسلحہ برآمد کیا تھا۔ چوہدری اسلم نے اپنی شہادت سےگزشتہ چند دن پہلے ر تحریک طالبان کے 12اہم کمانڈر سمیت کارندے اور بڑی تعداد میں اسلحہ پکڑا ۔ چوہدی اسلم کی ٹیم کراچی کے ان علاقوں میں کاروائی کرتی تھی جوعلاقے کسی بھی حساس ادارے ، پولیس ، رینجرز کے لئے نوگو ایریاز تھے افسران بالا سے کی ہدایتوں کو پس پشت ڈال کر دہشت گردوں کے خلاف کاروائیوں میں مصروف رہنے والا چوہدری اسلم کے افسران بالا سے تعلقات خراب ہونے کی وجہ بھی یہی کاروائیاںتھی۔انکاؤنٹراسپیشلسٹ کےنزدیک دشمن کومردہ پکڑناہی مشن تھا ۔ کیونکہ گواہان کی عدم موجودگی کی بناءپرملزمان باآسانی رہاہوجاتے ہیں.
شہادت سے ایک دن پہلے تحریک طالبان کے امیر نے چوہدری اسلم سے ٹیلی فون پررابطہ کیااورکہاکہ ہمارےبندوں کو عدالتوں میں پیش کرو مارو نہیں۔ جس پر وہاں موجود شخص نے بتایا کہ ان سے تلخ کلامی ہوئی اورشاہد اللہ شاہد کی طرف سے چوہدری اسلم کو دھمکی دی گئی۔ نڈراوردلیر سپاہی نے اس دھمکی کے جواب میں شاہداللہ شاہد کوجواب دیا کہ تم بھی سامنے آؤ گے تو میں تمھیں بھی مار دوں گا. اس کال میں پولیس چیف(شاہدحیات) کی تعریف بھی شاہد اللہ شاہد کیطرف سے کی گئی اورانکی خدمات کوسراہا۔ یہ وہی شاہدحیات ہیںجسکومرتضی بھٹو قتل کیس میںبھی سزاء ہوئی تھی ۔ اس بارپھرپیپلز پارٹی نے کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کے لئے شاہد حیات کی خدمات حاصل کی۔ شاہدحیات نے بذریعہ عدالت چوہدری اسلم کی تنزلی بھی کرائی تھی۔ رات دہشت گردوں کے خلاف واپس آکر آرام کرنے والے چوہدری اسلم کوشاہد حیات کیجانب سےفون کال آئی کے جلد سے جلد آفس پہنچیں۔ دوسری طرف بچے چوہدری اسلم کے ساتھ اپنے ٹیوشن جانے کے لئے تیار ہورہے تھے۔ لیکن چوہدری اسلم اپنی یہ خواہش پوری نہیں کر سکے اورغریب آباد کے قریب لیاری ایکسپریس وے پل پر چڑھتے ہوئے دھماکہ میں شہید ہوگئے۔ بم ڈسپوزبل اسکواڈ کی جانب سے دی گئی رپورٹ کےمطابق 200 کلوگرام بارودی مواد استعمال کیا گیا ہے۔ اتنی آسانی سے اتنی بڑی تعداد میں بارود کی منتقلی کراچی آپریشن پرسوالیہ نشان ہے۔
چوہدری اسلم کی شہادت کے بعد وفاقی وزیر داخلہ کو سانپ سونگھ گیا۔ طالبان کی حمایت یافتہ جماعتیں بھی چپ سدھارے بیٹھی رہی اورتنقید کےبعد اپنے مذمتی بیان ریکارڈ کروائے۔ نمازجنازہ میں ماہ سوائے طالبان دوست جماعتوں کے تمام مکاتب فکرنے شرکت کی۔ چوہدری اسلم کی مانگی ہوئی دعائے شہادت تو قبول ہوگئی اور ایک اور بہادرپولیس والا نئی تاریخ رقم کر گیا۔ لیکن تاحال دہشت گردوں کےلئےحکومت کی جانب سے نرم گوشہ اورمذکرات کا ورد ختم نہیں ہوا۔ اقتدار کے مزے لینے والوں نے اب بھی اگرہوش کے ناخن نہ لئے تو عوام اپنے دفاع کے لئے حق بجانب ہونگے۔ حکومت وقت سے اپیل ہے کہ چوہدری اسلم کا خون اگر رائیگاں گیا تو تاریخ ہم کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔