Home » , , , , , , , » بلاگ: بے ضمیر حکمراں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان

بلاگ: بے ضمیر حکمراں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان


By Muhammad Umair | Published in the XReports.net, on April 1st, 2014

ملک پاکستان بنے 66 سال کا عرصہ بیت گیا۔ پُلوں کے ینچے سے پانی بہہ رہا ہے اور بہتا جارہا ہے۔لیکن پانی کم کیوں ہو رہا ہے اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں بجائے مسائل حل ہونے کے پاکستان کو مزید مسائل اور سالمیت کے خطرات درپیش ہو رہے ہیں۔


تقسیم برصغیر سے پہلے پاکستان کے خلاف جن لوگوں نے اس کی تقسیم کی حمایت کی آج وہی لوگ دربدر اور جنہوں نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی گزشتہ 66 سالوں سے افسوس اقتدار انہی جیسی سوچ کے لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ ماسوائے چند ایک کے جو پاکستان کی سالمیت کے بارے میں آگاہی دیتے ہیں۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ اپنا سب کچھ پاکستان بنانے اور پاکستان بچانے پر قربان کرتے ہیں وہی لوگ اس ملک میں حکمرانی سے محروم ہیں نہ جانے کیوں اس سوال کا جواب بہت تلخ ہے لیکن جواب ہے ضرور

پاکستان بننے کے بعد سے اب تک کئی بار دشمن مختلف طریقوں سے پاکستان پر حملے کر چکا ہے۔ حکمرانی کے مزے لینے والے خاندان بھی صرف اپنی نسلوں کی بقاء اور خوشحالی کے فیصلے کرتے رہے ہیں اور رہینگے۔ لاکھوں افراد کی جانوں کا نظرانہ پیش کرنے کے بعد بننے والا پاکستان آج نیلام ہونے کی جانب گامزن ہے۔ ہر دور کے اقتدار میں حکمرانوں سے اپنی بساط کے مطابق ملک کو نیلام کرنے کے فیصلے کئے۔

حکمرانی کرنے والے خاندان، سیاستدان، جاگیردار اور وڈیرے اپنے ووٹرز کا درد سمجھنے سے قاصر ہیں۔ انہیں اس درد کا اندازہ اس وجہ سے بھی نہیں ہوتا کیونکہ ایسے تمام افراد منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ چاہیے کوئی انصاف نہ ملنے پر خودسوزی کرے، کسی طالب علم کو گولی مار دی جائے۔ مساجد اور دیگر عباتگاہوں کو بموں سے اڑا دیا جائے یا پھر عدالتوں میں حملے کئے جائیں۔ ایسے تمام حکمراں طبقے نے ہر صورت میں اپنے خاندان کے مستقبل کے بارے میں ہی سوچا کہ انکا مستقبل بہتر سے بہترین ہوسکے۔

اپنے بچوں کے مستقبل کو غریب کے درد اور اسکے ٹیکسس سے سنوانے والے بے ضرر حکمران آخر چاہتے کیا ہیں۔ چاہیے پنجاب یوتھ فیسٹول کے دوران مریم نواز کو لگنے والی چوٹ ہو یا پھر بلاول کا معمولی بخار ان بچوں کا علاج دیار غیر میں ہوتا ہے۔ اپنے بچوں کے لئے علاج معالجے، تعلیم اور رہن سہن غیر ممالک میں ہی ان سہولیات کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اپنے ووٹوں کے زریعے حکمرانی پر لانے والے لوگ ان لوگوں کو ضروریات زندگی سے دور رکھا جاتا ہے۔ پانچ سال گزارنے کے بعد پھر ان سے وعدے اور عہد کئے جاتے ہیں کہ اب کی بار انہیں ضروریات زندگی کی تمام سہولیات میسر ہونگی۔ اسی طرح جمہوری خاندانوں نے تقریبا 30سال کا عرصہ گزار دیا۔

صحرائے تھر میں بلکتے لوگ ہوں یا چولستان کے بھوکے غریب عوام انکے مسائل کو حل کرنے کے لئے بھی سیاست سے کام لیا جاتا ہے۔ امداد کے بڑے بڑے وعدے کر دئیے جاتے ہیں۔ امداد دینے کے دوران بھر پور انداز میں فوٹو اور ویڈیو سیشن کروایا جاتا ہے۔ اعلی حکمران کا استقبال مرغ مسلم سے اس سرزمیں پر کیا جاتا ہے۔ جہاں بھوک و افلاس کے باعث لوگوں کی حالت غیر ہوتی ہے۔ جہاں کے زند ہ لوگ بیماری اور بیمار لوگ موت کے انتظار میں اپنی زندگی ڈر ڈر کے گزار رہے ہوتے ہیں۔ اس دوران اگر میڈیا چینل اور اخباری رپوٹرز اگر نہ پہنچ پائیں یا پھر پہنچنے میں دیر کر دیں تو انکا انتظار بھی کیا جاتا ہے نہ کہ امداد تقسیم کی جاتی ہے۔

دنیا کا کوئی بھی مذہب ہو حقوق العباد کو ادا کرنے پر زور دیتا ہے اگرچہ انکے نام مختلف ہیں۔ اسلام کی بھی حقوق العباد ادا کرنے کے حوالے سے بہت سخت تاکیدیں اور نہ ادا کرنے پر کڑے عذاب کی وعیدیں بھی سُنائی گئی ہیں۔ اسی طرح ریا کاری، مکر وفریب سے بھی رکنے کا بار بار اشارہ دیا گیا ہے۔ لیکن ہمار ے حکمراں بغیر ریا کاری اور مکروفریب کے کوئی کام نہیں کر پاتے نہ جانے کیوں۔۔؟

اللہ اُن قوموں کی حالت نہیں بدلتا جن قوموں کو اپنی حالت بدلنے کا خود سے خیال نہ ہو۔ مسائل کا حل جب عوام کے پاس ہے تو حکمران کیو ں مسائل حل نہیں کرتے۔؟ ان سوالات کا جواب صرف یہی ہے کہ ہم نے کبھی بھی حکمرانی کے لئے اپنے درمیاں سے قیادت کو متعارف نہیں کرویا جو ہمارے درد اور داد 
رسی کر سکے۔ اب فیصلہ ہمیں کرنے ہے کہ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل روشن ہو یا تابناک۔۔؟

Share this Report :
 
Copyright © 2012. 'X' Reports - All Rights Reserved
Email Address: info@xreports.net Proudly powered by XReports